تحریر: مولانا سید عمار رضا نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | بے پناہ حمد و ثنا اس ذات یکتا کے لیے جس نے انسان کو وجود کا جامہ پہنا کر اس کی فطرت کے نہاں خانوں میں جذبات و احساسات اور خواہشات کا رنگارنگ خزانہ رکھا۔اس خزانے میں فرحت ومسرت کی کہکشائیں بھی ہیں اور غم و الم کی سسکیاں بھی،کسی باکمال کی جانب مقناطیس کی طرح کھینچتا جذبہ محبت بھی ہے اور کسی ناپسندیدہ چیز سے فرار پر مجبور کرتا جذبہ نفرت بھی۔غرض جذبات کی ایک دنیا ہے جو ہماری فطرت کے خلوت کدوں میں آباد ہے۔اسلام دین فطرت ہے۔خالق فطرت نے اپنے اس پسندیدہ دین میں ان تمام جذبات کی متوازن تسکین کا سامان مہیا فرمایا ہے۔
جذبہ محبت کی تسکین کے لئے "تولا" کو واجب قرار دیا تو نفرت کے لئے "تبرا" کو ایمان کا حصہ بنایا۔ جذبہ غم کی تسکین کے لئے غم آل محمد میں گریہ و زاری کو رکھا تو فرحت و مسرت کے لئے کچھ ایام کو ایام عید قرار دیا۔سال بھر میں تین عیدیں آتی ہیں جو :عید الفطر،عید الاضحٰی اور عید غدیر ہے اس کے علاوہ ایک ہفتہ وار عید بھی ہے جسے جمعہ کہا جاتا ہے۔ امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں: إنَّمَا الأعيادُ أربَعَةٌ لِلشّيعَةِ : الفِطرُ و الأضحى و الغَديرُ و الجُمُعَةُ یعنی شیعوں کے لئے چار عیدیں ہیں: عید الفطر،عید الاضحیٰ،عید غدیر اور جمعہ
اسلام نے جہاں کچھ ایام کو اہل ایمان کے لئے عید قرار دیا ہے وہیں ان کے آداب بھی بتائے ہیں۔ائمہ معصومیں علیہم السلام کے ارشادات کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسلام میں عید کا تصور خدا وند عالم کی نافرمانی سے دوری سے وابستہ ہے۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: كُلُّ يَومٍ لا يُعصَى اللّه ُ فيهِ فَهُوَ عِيدٌ یعنی ہر وہ دن عید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے۔گویا جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا لے اس سے اللہ خوش ہوتا ہے اور جس سے اللہ خوش ہو جائے اس کے لئے یقیناً جشن اور عید کا موقع ہے۔اس دار ہستی میں رضائے الٰہی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے جس دن یہ نعمت مل جائے وہ دن یقیناً اس لائق ہے کہ اسے بطور عید منایا جائے،جشن برپا کیا جائے اور پروردگار کا شکر ادا کیا جائے جس نے اتنی بڑی نعمت سے نوازا۔اس کے برعکس جو گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے اس کے لئے جشن منانا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔کیونکہ ایسا شخص اپنے رب کو ناراض کئے ہوئے ہے اور جس سے پروردگار ناراض ہو اس سے بڑا بد نصیب کوئی نہیں ہے۔تو عید منانے کا بنیادی اصول یہ ٹھہرا کہ عید کے دن خوشیاں مناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوئی ایسا عمل صادر نہ ہو جو معصیت پروردگار کے دائرے میں آتا ہو۔
خاص عید الفطر کے متعلق حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: إنَّما هُوَ عِيدٌ لِمَن قَبِلَ اللّه ُ صِيامَهُ و شَكَرَ قِيامَهُ یعنی عید الفطر تو فقط اس کے لئے عید ہے جس کے روزوں کو اللہ نے قبول کر لیا ہو اور جس کی عبادتوں کا اس نے شکریہ ادا کیا ہو۔اس حدیث مبارکہ سے عید الفطر کا فلسفہ سامنے آتا ہے کہ یہ عید کیوں اور کس کے لئے رکھی گئی ہے۔در اصل پروردگار نے اپنے فضل و کرم کا دریا بہاتے ہوئے ماہ مبارک میں اپنی رحمتوں کا دسترخوان بچھایا جس پر طرح طرح کی روحانی و معنوی غذائیں پروسی۔دن کے روزے اور رات کی عبادتیں اس دسترخوان رحمت کی خاص غذائیں ہیں۔ جس بندے نے کمال اخلاص کے ساتھ شب زندہ داری کی اور تقویٰ کے ساتھ روزے رکھے یقیناً اللہ اس کے روزوں اور اس کی عبادتوں کو شکریہ کے ساتھ قبول کرے گا۔اور جس کی عبادتیں بارگاہ معبود میں قبول ہو جائے اس کے لئے یقینی طور پر عید منانے اور جشن کرنے کا موقع ہے۔
ظاہر ہے جس نے ہماری عبادتوں کو قبول کرکے ہمیں جشن منانے کا موقع دیا ہے انسانیت کا تقاضا ہے کہ عید کے دن اسے یاد کیا جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: إنَّ هذا اليَومَ يَومٌ جَعَلَهُ اللّه ُ لَكُم عِيدا و جَعَلَكُم لَهُ أهلاً ، فَاذكُرُوا اللّه َ يَذكُركُم وَ ادْعُوهُ يَستَجِب لَكُم یعنی یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید قرار دیا ہے اور تمہیں اس کا اہل بنایا ہے پس اللہ کو یاد کرو تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اور اس سے دعا مانگو تاکہ وہ تمہاری دعاؤں کو قبول کرلے۔ گویا عید کا دن خدا کو یاد کرنے اور اس سے دعائیں مانگنے کا دن ہے۔لہٰذا جتنا ہو سکے اسے یاد کریں اور اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے،جملہ مومنین و مومنات کے لئے اور عالم اسلام خاص طور سے اہل فلسطین کے لئے دعا کریں جو مسلسل اسرائیلی اور امریکی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ عید الفطر کا ایک سماجی پہلو بھی ہے۔امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: إنَّما جُعِلَ يَومُ الفِطرِ العِيدَ لِيَكونَ لِلمُسلِمينَ مُجتَمَعا يَجتَمِعُونَ فيهِ و يَبرُزونَ لِلّهِ فَيُمَجِّدُونَهُ عَلى ما مَنَّ عَلَيهِم یعنی یوم الفطر کو عید ا س لئے قرار دیاگیا تاکہ اس دن مسلمان ایک مقام پر جمع ہو کر اللہ کے لئے گھروں سے نکلیں اور اس کے احسانات کا شکر ادا کریں۔گویا عید الفطر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے ملے اور مل جل کر اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔اجتماعی دعاؤں اور عبادتوں کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔عید الفطر کے دن فطرہ کے عنوان سے کچھ طعام یا اس کی قیمت ضرورتمندوں تک پہنچانے کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ جو لوگ معاشی اعتبار سے کمزور ہیں وہ بھی اپنے بچوں کے لئے عید کا سامان فراہم کر سکے۔ایک نظر اپنے آ س پاس کے لوگوں پر ڈال لیجئے۔اگر کوئی ضرورت مند ملے تو اس کی مدد کیجئے ۔ایسا نہ ہو کہ ہم تو عید مناتے رہے اور ہمارے ہی پڑوس میں کچھ بچے عید کی خوشیوں سے محروم رہ جائیں۔
خلاصہ یہ کہ عید الفطر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے روزوں اور اپنی عبادتوں کی قبولیت کی خوشی منانے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔اسلام نے خوشی ہو یا غم سب کے آداب بتائے ہیں۔خوشی کے اپنے آداب ہیں اور غم کے اپنے اصول۔ہمیں عید مناتے وقت ان آداب کا خیال رکھنا چاہئے۔ایسا نہ ہو خوشی کے نشے میں ہم ان آداب کو فراموش کر بیٹھے۔